ہماری
ایک کہاوت ہے کہ ’’ جلدی کا کام شیطان کا “ پھر بھی ہم زندگی کے ہر معاملے میں شارٹ
کٹ / جلد بازی پسند کرتے ہیں اور اس شارٹ کٹ
کے چکر میں خاطر خواہ نقصان بھی اُٹھاتے ہیں۔ ہمارے جد امجد حضرت آدمؑ نے بھی اِسی
شارٹ کٹ ( Short Cut) کے چکر میں نقصان اُٹھایا تھا۔
حضرت آدمؑ مزے سے جنت کا لباس پہنے ماں حوا کے ساتھ جنت میں پر لطف زندگی گزار رہے تھے‘ جہاں چاہتے
گھومتے پھرتے اور جو چاہتے کھاتے پیتے تھے سوا ئے شجرِ ممنوعہ کے ۔
جیسے اللہ
سبحانہ و تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:
وَقُلْنَا
يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ
شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ 0 سورة البقرة - 35
اور ہم نے کہہ دیا
کہ اے آدم!
تم اور تمہاری بیوی جنت میں
رہو اور جہاں کہیں
سے چا ہو بافراغت کھاؤ پیو، لیکن اس
درخت کے قریب
بھی نہ جانا
ورنہ ظالم
ہو جاؤ گے۔
ایک اور
آیت میں ارشاد ہے:
وَيَا
آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا
تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ0 سورة الأعراف-19
اور اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں
رہو، جہاں سے
چا ہو کھاؤ، مگر اس درخت کے پاس مت جانا
ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ
گے۔
لیکن انسان
کا ازلی
دشمن ابلیس حضرت آدم ؑ اور حضرت حواؑ
کے دلوں میں شارٹ کٹ کی تڑپ
پیدا کی:
فَوَسْوَسَ
لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا
وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا
مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ 0 سورة
الأعراف-20
پھر انہیں شیطان نے بہکایا تاکہ
ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے
چھپائی گئی تھیں ان
کے سامنے کھول دے
اور کہا تمہیں تمہارے رب
نے اس درخت
سے نہیں روکا مگر اس لیے کہ کہیں تم
فرشتے ہو جاؤ یا ہمیشہ رہنے
والے ہو جاؤ۔
ایک اور
آیت میں اس شارٹ کٹ کی ترغیب کو یوں فرمایا گیا ہے:
فَوَسْوَسَ
إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ
وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ 0 سورة طه
- 120
لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈاﻻ کہنے
لگا "آدم، بتاؤں تمہیں
وہ درخت جس
سے ابدی زندگی اور
لازوال سلطنت حاصل ہوتی
ہے؟"
اور پھر
اس شارٹ کٹ سے شارٹ سر کٹ ہو گیا :
فَدَلَّاهُمَا
بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا
وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ (سورة الأعراف: آیت 22)
پھر انہیں دھوکہ سے مائل
کر لیا پھر جب ان
دونوں نے درخت
کو چکھا تو
ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور اپنے اوپر بہشت کے
پتے جوڑنے لگے۔
ایک اور
جگہ بیان ہوا ہے کہ اس شارٹ کٹ سے حضرت
آدمؑ بھٹک گئے:
فَأَكَلَا
مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن
وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ 0 سورة طه-
121
چنانچہ ان دونوں نے
اس درخت سے
کچھ کھا لیا
پس ان کے ستر کھل
گئے اور اپنے اوپر
جنت کے پتے چپکا نے لگے اور
آدمؑ نے اپنے رب
کی نافرمانی کی، پس بھٹک گیا۔
اور شیطان
کی اس شارٹ کٹ یعنی فرشتے بننا یا جنت میں ہمیشہ
رہنے کی باتیں محض دھوکہ‘ فریب اور جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھی۔
وَمَا
يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا 0
سورة الإسراءز- 64
اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے
سوا اور کچھ بھی نہیں
حضرت آدمؑ بہشت میں ابدی زندگی کے لئے شیطان کے دھوکے میں
آکر شارٹ کٹ اختیار کیا یعنی اللہ کی نا فرمانی کی اور راحت و سکون والی جنت
سے محنت و مشقت والی دنیا میں آگئے۔لیکن جوں
ہی انہیں اپنی اس غلطی کا احساس ہوا‘ اللہ
کی طرف متوجہ ہوئے تو اللہ نے بھی نظرِ رحمت کی اور پکارا :
وَنَادَاهُمَا
رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ
الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ 0 سورة
الأعراف - 22
اور انہیں ان کے رب نے پکارا کیا میں
نے تمہیں اس درخت
سے منع نہیں کیا تھا
اور تمہیں کہہ نہ دیا تھا
کہ شیطان تمہارا
کھلا دشمن ہے۔
اللہ کی
اس پکار پر حضرت آدمؑ اِبلیس مردود کی طرح
غرور‘ تکبر اور ہٹ دھرمی نہیں دکھایٴ بلکہ اپنی غلطی کے احساس سے ندامت و شرمساری اور
عجز و انکساری کے ساتھ فوراً اپنے رب کی طرف پلٹے:
قَالَا
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا
لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ 0 سورة الأعراف-23
ان دونوں نے کہا اے رب ہمارے ہم
نے اپنی جانوں پر
ظلم کیا اور
اگر تو ہمیں
نہ بخشے گا
اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم ضرور تباہ ہو
جائیں گے۔
حضرت آدمؑ نے
یہ کلمات اپنے
رب سے ہی سیکھے تھے
:
فَتَلَقَّىٰ
آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ 0 سورة
البقرة - 38
پھر آدمؑ نے اپنے
رب سے چند کلمات سیکھ
کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول
کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے
والا اور رحم
فرمانے والا ہے۔
حضرت آدمؑ
نے شارٹ کٹ / جلد بازی کے چکر میں جو نافرمانی
کی تھی‘ جب وہ اپنے رب کے طرف پلٹے تو اللہ غفورالرحیم نے اُنہیں معاف کر دیا۔
انسانی
فطرت میں شارٹ کٹ / جلد بازی کی منفی وصف اسکی تخلیق کے وقت سے ہی موجود ہے جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کے جسم میں روح پھونکا۔ روح سر سے داخل ہویٴ اور
آدمؑ کو چھینک آگئی۔
فرشتوں
نے کہا کہئے: ’ الحمدللہ ‘
انہوں
نے فرمایا: الحمدللہ (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہے) ۔
اللہ نے فرمایا: رَحِمَکَ رَبُّک (تیرے رب نے تجھ پر رحمت فرمایٴ)۔
جب روح آنکھوں میں پہنچی آپؑ کو جنت کے پھل نظر آئے‘
پھر جب روح پیٹ میں داخل ہویٴ تو آپؑ کو کھانے کی خواہش پیدا ہویٴ اور آپؑ جلدی سے
جنت کے پھلوں کی طرف لپکے جبکہ روح ابھی آپؑ
کی ٹانگوں میں داخل نہین ہویٴ تھی ۔ (تفسیر الطبری‘ تفسیر سورۃ الانبیاء
آیت 37)
اسی لئے
اللہ نے فرمایا ہے:
خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ ( سورة الأنبياء -37 )
انسان جلد باز مخلوق ہے۔
یعنی جلد
بازی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور شیطان اولادِ آدم کو اسی جلد
بازی / شارٹ کٹ میں ڈال کر گمراہ کرتا ہے۔
دنیاوی
معاملات میں شیطان شارٹ کٹ مالدار بننے / مال کمانے کیلئے ۔۔۔ مزار
بنانا اور مجاور بن کر لوگوں کو قبر والے کی کرامات بتا بتا کر خوب دولت بٹورنا
‘ چوری‘
ڈکیتی و رہزنی کرنا‘ رشوت خوری و سودخوری سے مال بنانا‘ یتیموں و بیواوٴں کا مال اور میراث ہڑپ کر نا‘ سرکاری خزانے کو لوٹنا‘ بنک سے بڑے بڑے قرض لے کر نہ دینا ‘ نجی و سرکاری املاک پر قبضہ کرنا اور اسے کوڑیوں کی قیمت بیچ
دینا‘ ملاوٹ و چور بازاری اور زخیرہ اندوزی
و ناپ تول میں کمی کرکے مال بنانا‘
منشیات و اسمگلنگ اور دیگر حرام تجارت سے مال بنانا‘ حکمراں
بن کر عوام کا مال ہڑپ کرنا اور
زکاۃ کی رقم و بیت المال پہ
ہاتھ صاف کرنا‘ منصف بن کر انصاف کو بیچنا‘ طبیب بن کر لوگوں کا مال کیلئے لوگوں کا خون کرنا‘
محاسب بن کر سرکاری کھاتے میں خرد برد
کرنا‘ سرمایا داروں و
صنعت کاروں کا مزدورو
ں و
ملازمین کا حق مارنا وغیرہ وغیرہ سکھاتا ہے۔
جبکہ ہمارا
رب سکھاتا ہے:
وَلَا
تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى
الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ
وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ 0 سورة البقرة- 188
اور ایک دوسرے
کا مال ناحق نہ
کھایا کرو، نہ
حاکموں کو رشوت
پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم
وستم سے اپنا کر
لیا کرو، حاﻻنکہ تم جانتے
ہوز۔
دینی معاملات
میں شیطان جنت کی حصول کا شارٹ کٹ راستہ دکھاتا ہے۔
پیر صاحب
کے ہاتھ پر بیت کرلو‘ پیر صاحب جو منتر کہیں وہ جپتے رہو‘ نہ صوم و صلوۃ کی پابندی
نہ حج و زکاۃ کی ضرورت ۔۔۔ پیر صاحب شارٹ کٹ جنت میں
پہنچا دیں گیں ؟؟؟
مزاروں
کو چومو‘ چانٹو‘ پھول ڈالو‘ عرق گلاب چھڑکو‘ لوبان و اگربتی جلاوٴ‘ چراغاں کرو‘ چادر
چڑھاوٴ ۔۔۔ مزار والے بابا کو خوش کرو شارٹ کٹ جنت میں ؟؟؟
مزاروں
پہ عرس کرو‘ میلا ٹھیلا لگاوٴ‘ ڈھول تاشے بجاوٴ‘
نشہ کرکے ناچو‘ گاوٴ‘ تالیا
و سیٹیاں بجاوٴ اور اخلاق سوز حرکتیں کرو ۔۔۔ شارٹ کٹ جنت میں ؟؟؟
رکوع و سجدہ کرو اور اُلٹے قدم چل کر مزار والے مرے ہوئے بابا
کی تعظیم بجا لاوٴ ۔۔۔ شارٹ کٹ
جنت میں ؟؟؟
مزار پہ
چڑھاوا دو‘ بکرا گائے بھینس قربان کرو‘ نظرانہ دے کر مجاور کی مٹھی گرم کرو‘ اور بہت
قربت چا ہیئے تو اپنی بیوی‘
بہو‘ بیٹی کو
مجاور کی بستر گرم
کرنے کیلئے چھوڑ
دو اور مجاور سے شارٹ کٹ جنت کا
ٹکٹ لے لو ؟؟؟
اور یہ
بھی نہ ہو سکے تو زندگی میں ایک بار پاک پتن کے
بہشتی دروازے سے گزر جاوٴ ۔۔۔۔۔ بس شارٹ کٹ بہشت میں
؟؟؟
نہ توحیدِ
و شرک کا فرق سمجھنا اور نہ ہی رسالتِ نبوی ﷺ
سے سروکار‘ اولیاوٴں کے کرامات کی کتابیں پڑھنا اور قرآن کو تاک پہ رکھنا‘ نماز
و روزے کے قریب بھی نہیں جانا‘ حج و عمرہ بھی مزار پہ‘ قربانی بھی مزار پہ‘ زکاۃ بھی مزار کی نظر ۔۔۔ اِس
سے زیادہ اور کیا شارٹ کٹ راستہ دکھائے گا شیطان ؟؟؟
یہ سارے شارٹ کٹ تو بہت قدیم ہیں اورمدتوں سے چلے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ
شیطان اللہ کے بندوں کو پھانسنے کیلئے ہر دور میں نئے نئے شارٹ کٹ لاتا رہا ہے۔ کبھی اس نے یونانیوں کا فلسفہ لایا تو کبھی
وحدت لوجود و وحدت الشہود کا فلسفہ اور کبھی
ڈاروین کا نظریہ‘ کبھی کسی کو جھوٹا نبی بنا کر لایا تو کبھی کسی کو مہدی اور شیطان
کا اس دور کا شارٹ کٹ ہے ’’ خود کش ‘‘ حملہ۔
مسجد‘
مندر‘ گرجا‘ امام بارگاہ‘ اسکول‘ بازار‘ چوراہے وغیرہ لوگوں کے جائے اجتماع پہ خود کش جیکٹ پہن کر خود
کو اُڑا لو ‘ اور جتنا زیادہ معصوم و بیگناہ عورت‘ مرد‘ بچے‘ بوڑھے‘ نوجوانوں کو قتل کر و منٹوں میں وتنے ہی جنت کی حوروں کے درمیان پہنچ جاوٴ۔ اس سے بہتر
شارٹ کٹ شیطان اور کہاں سے لائے گا ؟
نہ ہی دنیا کی دکھ درد و مشقت اور آزمائش والی زندگی کے ماہ و سال گزارنا ‘ نہ ہی قبر میں سوال و جواب کا ڈر‘
نہ ہی طویل برزخی زندگی اور نہ ہی قیامت کی ھولناکیاں۔۔۔ بس منٹوں میں جنت کے مزے اور
بیشمار حوریں۔۔۔
یہ سارے شیطان اور اس کے چیلوں کے بنائے ہوئے شارٹ
کٹس ہیں لیکن جنت کے نہیں جہنم کے اور آج کتنے
مسلمان ہیں جو اِن شارٹ کٹ
کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ
کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم مین جھونک رہے ہیں۔ شیطان ایسا نہیں کہ گمراہ کرکےبس چھوڑ دے بلکہ وہ آخری سانس تک گمراہ
کرتا ہے ارو جہنم کے سب سے نیچلے درجے تک پہنچانے کی سعی بندے کی آخری سانس نکلنے تک
کرتا ہے۔. اور اِس کا مشاہدہ ہم سب اکثر ہی
کرتے رہتے ہیں کہ جو لو گ گمراہیوں میں پڑجاتے ہیں وہ کیسی کیسی شیطانی افعال سر انجام
دیتے ہیں۔ اب اِس خود کش حملے کو ہی لے لیجئے کہ اِس کا اِرتکاب کرنے والے کا مقام
کہاں ہوگا ؟
شارٹ کٹ
تو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے راستے ہیں جو دنیا اور
آخرت دونوں میں شارٹ کٹ
ہیں اور جنت کی ابدی زندگی کی شارٹ کٹ بھی ۔
سیدنا
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ:
ہمارے
لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک روز زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی ، پھر اس کے ارد گرد کچھ
چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچی پھر اپنی انگشت مبارک اس سیدھی لکیرپر رکھ کر یہ آیت تلاوت
فرمائی:
وَأَنَّ هَـٰذَا
صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ
عَن سَبِيلِهِ ۚ سورة الأنعام۔
153
اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے
جومستقیم ہےسو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پرمت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی
راه سے جدا کردیں گی۔
پھر آپ ﷺ
نے فرمایا جبکہ آپ ﷺ اپنی انگلی مبارک کو اس خط مستقیم (سیدھی لکیر) پر پھیر رہے تھے:
یہ اللہ کی راہ ہے۔
پھر
ان چھوٹی چھوٹی لکیروں کی جانب اشارہ فرمایا جواس خط مستقیم کےاردگرد کھینچی گئی تھیں
کہ: اوریہ مختلف راہیں جن میں سے ہر راہ کےاوپر ایک شیطان بیٹھا اپنی طرف لوگوں کودعوت
دے رہاہے۔
اس حدیث
اور آیتِ قرآنی کے مطابق اپنے آس پاس اور اپنے
معاملات میں گہرا نظر رکھئیے اور دیکھئیے کن کن راستوں پہ شیطان اور اُس کے چیلے بیٹھے
ہیں‘ ان راستوں کو چھوڑ کر اللہ کا راستہ جو کہ مستقیم ہے اُس پہ آجائیے۔ سب جانتے
ہیں جو سیدھا راستہ ہوتا ہے وہی شارٹ کٹ ہوتا ہے۔