Monday, April 14, 2014

Short Cut شارٹ کٹ

ہماری ایک کہاوت ہے کہ ’’ جلدی کا کام شیطان کا “ پھر بھی ہم زندگی کے ہر معاملے میں شارٹ کٹ / جلد بازی پسند کرتے ہیں اور اس  شارٹ کٹ کے چکر میں خاطر خواہ نقصان بھی اُٹھاتے ہیں۔ ہمارے جد امجد حضرت آدمؑ نے بھی اِسی شارٹ کٹ  ( ‎Short Cut)  کے چکر میں نقصان اُٹھایا تھا۔
حضرت آدمؑ  مزے سے جنت کا لباس پہنے ماں حوا کے ساتھ  جنت میں پر لطف زندگی گزار رہے تھے‘ جہاں چاہتے گھومتے پھرتے اور جو چاہتے  کھاتے  پیتے تھے سوا ئے شجرِ ممنوعہ کے ۔
جیسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ 0  سورة البقرة - 35
اور  ہم  نے  کہہ  دیا  کہ  اے  آدم!  تم  اور  تمہاری  بیوی  جنت  میں  رہو  اور  جہاں  کہیں  سے  چا ہو  بافراغت  کھاؤ   پیو،  لیکن  اس  درخت  کے  قریب  بھی  نہ  جانا   ورنہ  ظالم  ہو جاؤ  گے۔
ایک اور آیت میں ارشاد ہے:
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ0 سورة الأعراف-19
اور  اے آدم!  تم  اور  تمہاری  بیوی  جنت  میں  رہو،  جہاں  سے  چا ہو  کھاؤ،  مگر  اس  درخت کے  پاس  مت  جانا  ورنہ ظالموں  میں  سے  ہو جاؤ  گے۔
لیکن انسان  کا ازلی  دشمن ابلیس حضرت  آدم ؑ  اور حضرت حواؑ   کے  دلوں میں شارٹ  کٹ  کی تڑپ پیدا  کی:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِن سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَـٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَن تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ 0  سورة الأعراف-20
پھر انہیں  شیطان  نے  بہکایا  تاکہ ان  کی  شرم  گاہیں  جو  ایک  دوسرے  سے  چھپائی  گئی  تھیں  ان  کے  سامنے  کھول  دے  اور  کہا  تمہیں  تمہارے  رب  نے  اس  درخت  سے  نہیں  روکا  مگر  اس  لیے  کہ  کہیں  تم  فرشتے  ہو  جاؤ  یا  ہمیشہ  رہنے  والے  ہو  جاؤ۔
ایک اور آیت میں اس شارٹ کٹ کی ترغیب کو یوں فرمایا گیا ہے:
فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلَىٰ 0 سورة طه - 120
لیکن  شیطان  نے  اسے  وسوسہ  ڈاﻻ  کہنے  لگا   "آدم،  بتاؤں  تمہیں  وہ  درخت  جس  سے  ابدی  زندگی  اور  لازوال  سلطنت  حاصل  ہوتی ہے؟"
اور پھر اس شارٹ کٹ سے شارٹ سر کٹ ہو گیا :
فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ    (سورة الأعراف: آیت 22)
پھر  انہیں  دھوکہ  سے  مائل  کر لیا  پھر جب  ان  دونوں  نے  درخت  کو  چکھا  تو  ان  پر  ان  کی  شرم  گاہیں  کھل  گئیں  اور  اپنے  اوپر  بہشت  کے  پتے  جوڑنے  لگے۔
ایک اور جگہ بیان ہوا ہے کہ اس   شارٹ کٹ سے حضرت آدمؑ بھٹک گئے:
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ 0 سورة طه- 121
چنانچہ ان  دونوں  نے  اس  درخت  سے  کچھ  کھا  لیا  پس  ان  کے  ستر  کھل  گئے  اور  اپنے  اوپر  جنت  کے  پتے  چپکا نے  لگے  اور  آدمؑ نے  اپنے  رب  کی  نافرمانی  کی،  پس  بھٹک  گیا۔
اور شیطان کی اس شارٹ کٹ  یعنی فرشتے بننا یا جنت میں ہمیشہ رہنے کی باتیں محض دھوکہ‘ فریب اور جھوٹ کے سوا کچھ نہ تھی۔
وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا 0   سورة الإسراءز- 64
اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا اور کچھ بھی نہیں
حضرت آدمؑ  بہشت میں ابدی زندگی کے لئے شیطان کے دھوکے میں آکر شارٹ کٹ اختیار کیا  یعنی  اللہ کی نا فرمانی کی اور راحت و سکون والی جنت سے محنت و مشقت والی  دنیا میں آگئے۔لیکن جوں ہی انہیں  اپنی اس غلطی کا احساس ہوا‘ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے تو اللہ نے بھی نظرِ رحمت کی اور پکارا  :
وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ 0 سورة الأعراف - 22
اور انہیں  ان  کے  رب  نے  پکارا  کیا  میں  نے  تمہیں  اس  درخت سے منع  نہیں  کیا  تھا اور  تمہیں  کہہ  نہ  دیا  تھا  کہ  شیطان  تمہارا  کھلا  دشمن  ہے۔
 
اللہ کی اس پکار پر حضرت آدمؑ  اِبلیس  مردود  کی طرح غرور‘ تکبر اور ہٹ دھرمی نہیں دکھایٴ بلکہ اپنی غلطی کے احساس سے ندامت و شرمساری اور عجز و انکساری کے ساتھ فوراً اپنے رب کی طرف پلٹے:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ 0  سورة الأعراف-23
ان  دونوں  نے  کہا  اے  رب  ہمارے  ہم  نے  اپنی  جانوں  پر  ظلم  کیا  اور  اگر  تو  ہمیں  نہ  بخشے  گا  اور  ہم  پر  رحم  نہ  کرے  گا  تو  ہم  ضرور  تباہ  ہو جائیں  گے۔
حضرت  آدمؑ  نے  یہ  کلمات  اپنے رب سے  ہی  سیکھے  تھے  :
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ 0 سورة البقرة - 38
پھر آدمؑ  نے  اپنے  رب  سے  چند  کلمات  سیکھ  کر  توبہ  کی،  جس  کو  اس  کے  رب  نے  قبول  کر لیا،  کیونکہ  وہ  بڑا  معاف  کرنے  والا  اور  رحم  فرمانے  والا  ہے۔
حضرت آدمؑ نے شارٹ کٹ / جلد بازی کے چکر میں جو نافرمانی  کی تھی‘ جب وہ اپنے رب کے طرف پلٹے تو اللہ غفورالرحیم نے اُنہیں معاف کر دیا۔   انسانی فطرت میں شارٹ کٹ / جلد بازی کی منفی وصف اسکی تخلیق کے وقت سے ہی موجود ہے  جب اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ  کے جسم میں روح پھونکا۔ روح سر سے داخل ہویٴ اور آدمؑ کو چھینک آگئی۔
فرشتوں نے کہا کہئے: ’ الحمدللہ ‘
انہوں نے فرمایا:   الحمدللہ  (سب تعریفیں اللہ کے لئے ہے) ۔
 اللہ نے فرمایا:  رَحِمَکَ رَبُّک (تیرے رب نے تجھ پر رحمت فرمایٴ)۔
 جب روح آنکھوں میں پہنچی آپؑ کو جنت کے پھل نظر آئے‘ پھر جب روح پیٹ میں داخل ہویٴ تو آپؑ کو کھانے کی خواہش پیدا ہویٴ اور آپؑ جلدی سے جنت کے پھلوں کی طرف لپکے جبکہ روح ابھی آپؑ  کی ٹانگوں میں داخل نہین ہویٴ تھی ۔   (تفسیر الطبری‘ تفسیر سورۃ الانبیاء  آیت 37)
اسی لئے اللہ نے فرمایا ہے:
خُلِقَ  الْإِنسَانُ  مِنْ  عَجَلٍ ۚ  ( سورة الأنبياء -37 )  
انسان جلد باز مخلوق ہے۔
یعنی جلد بازی انسان کی فطرت میں شامل ہے اور شیطان اولادِ آدم کو  اسی  جلد بازی / شارٹ کٹ میں ڈال کر گمراہ کرتا ہے۔
دنیاوی معاملات میں  شیطان  شارٹ کٹ  مالدار بننے / مال کمانے کیلئے   ۔۔۔  مزار بنانا اور مجاور بن کر لوگوں کو قبر والے کی کرامات بتا بتا کر خوب دولت بٹورنا ‘  چوری‘  ڈکیتی  و رہزنی کرنا‘  رشوت خوری و سودخوری سے مال بنانا‘  یتیموں و بیواوٴں کا مال اور  میراث ہڑپ کر نا‘ سرکاری خزانے کو لوٹنا‘  بنک سے بڑے بڑے قرض لے کر نہ دینا ‘  نجی و سرکاری املاک پر   قبضہ کرنا اور اسے کوڑیوں کی  قیمت  بیچ دینا‘ ملاوٹ و چور بازاری اور زخیرہ اندوزی   و    ناپ تول میں کمی کرکے مال بنانا‘ منشیات و اسمگلنگ اور دیگر حرام تجارت سے مال بنانا‘  حکمراں  بن کر عوام  کا  مال  ہڑپ  کرنا اور  زکاۃ  کی  رقم  و  بیت المال پہ  ہاتھ  صاف کرنا‘  منصف  بن  کر  انصاف  کو  بیچنا‘  طبیب  بن  کر  لوگوں  کا مال کیلئے لوگوں کا  خون کرنا‘  محاسب  بن  کر  سرکاری  کھاتے  میں  خرد  برد کرنا‘  سرمایا  داروں  و صنعت  کاروں  کا   مزدورو ں  و  ملازمین  کا  حق  مارنا  وغیرہ  وغیرہ  سکھاتا ہے۔
جبکہ ہمارا رب سکھاتا ہے:
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ 0  سورة البقرة- 188
اور  ایک  دوسرے  کا  مال  ناحق  نہ  کھایا  کرو،  نہ  حاکموں  کو  رشوت  پہنچا  کر  کسی  کا  کچھ  مال  ظلم  وستم   سے  اپنا  کر  لیا  کرو،  حاﻻنکہ  تم  جانتے  ہوز۔
دینی معاملات میں  شیطان جنت کی حصول کا شارٹ کٹ راستہ  دکھاتا ہے۔
پیر صاحب کے ہاتھ پر بیت کرلو‘ پیر صاحب جو منتر کہیں وہ جپتے رہو‘ نہ صوم و صلوۃ کی پابندی نہ حج و زکاۃ کی ضرورت ۔۔۔ پیر صاحب شارٹ کٹ جنت میں پہنچا دیں گیں  ؟؟؟
مزاروں کو چومو‘ چانٹو‘ پھول ڈالو‘ عرق گلاب چھڑکو‘ لوبان و اگربتی جلاوٴ‘ چراغاں کرو‘ چادر چڑھاوٴ  ۔۔۔  مزار والے بابا کو خوش کرو شارٹ کٹ جنت میں  ؟؟؟
مزاروں پہ عرس کرو‘ میلا ٹھیلا لگاوٴ‘  ڈھول تاشے بجاوٴ‘  نشہ کرکے ناچو‘  گاوٴ‘  تالیا و سیٹیاں بجاوٴ اور اخلاق سوز حرکتیں کرو  ۔۔۔  شارٹ کٹ جنت میں  ؟؟؟
رکوع  و  سجدہ  کرو اور اُلٹے قدم چل کر مزار والے مرے ہوئے بابا کی تعظیم بجا لاوٴ ۔۔۔ شارٹ کٹ جنت میں ؟؟؟
مزار پہ چڑھاوا دو‘ بکرا گائے بھینس قربان کرو‘ نظرانہ دے کر مجاور کی مٹھی گرم کرو‘ اور بہت قربت چا ہیئے  تو  اپنی  بیوی‘  بہو‘  بیٹی  کو مجاور  کی  بستر  گرم  کرنے  کیلئے  چھوڑ  دو  اور  مجاور  سے  شارٹ کٹ جنت کا ٹکٹ لے لو  ؟؟؟
اور یہ بھی نہ ہو سکے تو زندگی میں ایک بار پاک پتن کے  بہشتی دروازے سے گزر جاوٴ ۔۔۔۔۔ بس شارٹ کٹ   بہشت میں  ؟؟؟
نہ توحیدِ و شرک کا فرق سمجھنا اور نہ ہی رسالتِ نبوی ﷺ  سے سروکار‘ اولیاوٴں کے کرامات کی کتابیں پڑھنا اور قرآن کو تاک پہ رکھنا‘ نماز و روزے کے قریب بھی نہیں جانا‘ حج و عمرہ بھی مزار پہ‘  قربانی بھی مزار پہ‘  زکاۃ بھی مزار کی نظر  ۔۔۔  اِس سے زیادہ اور کیا   شارٹ کٹ  راستہ دکھائے گا شیطان  ؟؟؟
یہ سارے  شارٹ کٹ تو بہت قدیم ہیں اورمدتوں سے چلے آرہے ہیں۔  اس کے علاوہ  شیطان اللہ کے بندوں کو پھانسنے کیلئے  ہر دور میں نئے نئے  شارٹ کٹ لاتا رہا ہے۔ کبھی اس نے یونانیوں کا فلسفہ لایا  تو  کبھی وحدت لوجود و وحدت الشہود کا فلسفہ اور  کبھی ڈاروین کا نظریہ‘ کبھی کسی کو جھوٹا نبی بنا کر لایا تو کبھی کسی کو مہدی اور شیطان کا اس دور کا شارٹ کٹ ہے ’’ خود کش ‘‘ حملہ۔
مسجد‘ مندر‘ گرجا‘ امام بارگاہ‘ اسکول‘ بازار‘ چوراہے وغیرہ  لوگوں کے جائے اجتماع پہ خود کش جیکٹ پہن کر خود کو اُڑا لو ‘  اور  جتنا زیادہ معصوم و  بیگناہ عورت‘ مرد‘ بچے‘ بوڑھے‘  نوجوانوں کو قتل کر و   منٹوں میں وتنے ہی  جنت کی حوروں کے درمیان پہنچ جاوٴ۔  اس سے بہتر  شارٹ کٹ شیطان اور کہاں سے لائے گا ؟  نہ ہی دنیا کی دکھ درد  و مشقت  اور آزمائش والی  زندگی کے ماہ و  سال گزارنا ‘ نہ ہی قبر میں سوال و جواب کا ڈر‘ نہ ہی طویل برزخی زندگی اور نہ ہی قیامت کی ھولناکیاں۔۔۔ بس منٹوں میں جنت کے مزے اور بیشمار حوریں۔۔۔
یہ  سارے شیطان اور اس کے چیلوں کے بنائے ہوئے شارٹ کٹس  ہیں لیکن جنت کے نہیں جہنم کے اور آج کتنے مسلمان ہیں جو اِن شارٹ کٹ کو اپنائے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم مین جھونک رہے ہیں۔  شیطان ایسا نہیں کہ  گمراہ کرکےبس چھوڑ دے بلکہ وہ آخری سانس تک گمراہ کرتا ہے ارو جہنم کے سب سے نیچلے درجے تک پہنچانے کی سعی بندے کی آخری سانس نکلنے تک کرتا ہے۔. اور اِس کا مشاہدہ ہم سب اکثر ہی کرتے رہتے ہیں کہ جو لو گ گمراہیوں میں پڑجاتے ہیں وہ کیسی کیسی شیطانی افعال سر انجام دیتے ہیں۔ اب اِس خود کش حملے کو ہی لے لیجئے کہ اِس کا اِرتکاب کرنے والے کا مقام کہاں ہوگا ؟
شارٹ کٹ  تو اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے راستے ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میں شارٹ کٹ  ہیں اور جنت کی ابدی زندگی کی شارٹ کٹ بھی ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ:
ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک روز زمین پر ایک سیدھی لکیر کھینچی ، پھر اس کے ارد گرد کچھ چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچی پھر اپنی انگشت مبارک اس سیدھی لکیرپر رکھ کر یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ سورة الأنعام۔  153
اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جومستقیم ہےسو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پرمت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔
 پھر آپ ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ ﷺ اپنی انگلی مبارک کو اس خط مستقیم (سیدھی لکیر) پر پھیر رہے تھے:  یہ اللہ کی راہ ہے۔
پھر ان چھوٹی چھوٹی لکیروں کی جانب اشارہ فرمایا جواس خط مستقیم کےاردگرد کھینچی گئی تھیں کہ: اوریہ مختلف راہیں جن میں سے ہر راہ کےاوپر ایک شیطان بیٹھا اپنی طرف لوگوں کودعوت دے رہاہے۔
اس حدیث اور آیتِ قرآنی  کے مطابق اپنے آس پاس اور اپنے معاملات میں گہرا نظر رکھئیے اور دیکھئیے کن کن راستوں پہ شیطان اور اُس کے چیلے بیٹھے ہیں‘ ان راستوں کو چھوڑ کر اللہ کا راستہ جو کہ مستقیم ہے اُس پہ آجائیے۔ سب جانتے ہیں جو سیدھا راستہ ہوتا ہے وہی شارٹ کٹ ہوتا ہے۔

Saturday, April 12, 2014

The Great Lie سب سے بڑا جھوٹ


       وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيْلًا  (۱۲۲ ) (سورہ النساء)       
ترجمہ: اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

 ہمارا اللہ سچا ہے۔ ، ہمارے نبی ﷺ سچے ہیں ۔
 ایمان والے،  اللہ کے متقی و پرہیزگار بندے  بھی سچے ہوتے ہیں اور سچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ (۱۱۹ )
 ترجمہ:   اے  ایمان  والو !  الله  سے   ڈرو  اور صرف  سچوں  کے  ساتھ  رہو۔   (سورہ توبہ) 

سچائی  انسان  کے  اندر  بہت  سی  خوبیوں  کو  جلا بخشنے  کا  سبب  بنتی  ہے۔   
سچائی  انسان  کو  گمراہیوں  سے  روک  کر بہت  سی  برائیوں  کے  ارتکاب  سے  معاشرے  کو پاک  رکھتی  ہے ۔ 
 سچ  عظم  عمل  ہے ،  اس  لیے  الله  سبحانہٗ  و  تعالٰی  کے  نزدیک  سچے  لوگوں  کا  اعلیٰ  رتبہ  ہے ۔   اللہ سبحانہٗ و تعالٰی اپنے سچے بندوں کا رتبہ یوں بیان کرتا ہے:

وَ مَنْ يُّطِعِ  اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ  مَعَ  الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ  النَّبِيّٖنَ  وَ  الصِّدِّيْقِيْنَ۠  وَ  الشُّهَدَآءِ  وَ  الصّٰلِحِيْنَ١ۚ  وَ   حَسُنَ   اُولٰٓىِٕكَ   رَفِيْقًاؕ  (۶۹)    (سورہ النساء)    
ترجمہ:    او ر جو  الله  کی  اور اس  کے  رسول  ﷺ کی  اطاعت  کرے  گا  تو  ایسے  لوگ  ان  لوگوں  کے  ساتھ  ہوں  گے  جن  پر  الله  نے  انعام فر مایا  ہے،  یعنی انبیاء،      صدیقین،  شہدا اور  صالحین  کے  ساتھ ۔ کیا  ہی  خوب  ہیں  یہ  رفقاء   رفاقت  کے  لیے۔
      
اور  جو شخص سچائی  سے  انحراف کرکے جھوٹ   کا  سہارا   لیتا  ہے   وہ  اللہ  سبحانہٗ و تعالٰی  اور  انسانوں  کے  نزدیک   بہت   بُرا   ہے  اور  اس   کا   اعتبار  نہیں  کیا  جاتا۔   وہ  غیروں  کے  ساتھ ساتھ    اپنوں  کو بھی  دھوکہ  دے   سکتا  ہے۔ جھوٹ  بولنا  ایک  نہایت  ہی  قبیح   وصف  ہے،  گناہِ  کبیرہ  اور  سنگین  فحش  ترین  جرائم  ہے۔ جو  جھوٹ  بولتے  ہیں  وہ  طاغوت  کے پیروکار  ہیں۔  جھوٹ  تو انہی  کو  زیبا  ہے،   جن  کا  اللہ  پہ  ایمان   کامل   نہ   ہو   جو اللہ  سے  نہیں  ڈرتے اور جن  کو   اللہ کی   سزا  کا  ڈر  نہ   ہو   جو  انہیں  جھوٹ  سے  روک  سکے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے:

اِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ  (۱۰۵)       (سورہ النحل)
ترجمہ: جھوٹ تووہی باندھتے ہیں جوکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے  ہیں۔

لہذا  جھوٹ  و بہتان کی جراٴت تو وہی کرتا ہے، جس کا آیات الٰہیہ پر ایمان نہ ہو اور جو  زندیق ہو،   کافر ہو،  دہریہ ہو۔  مندرجہ بالا آیاتِ میں اللہ کے طرف سے  یہ سنگین وعید ہے۔

’’ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور بلاشبہ جھوٹ برایٴ کی طرف لے یاتا ہے اور برایٴ جہنم کی طرف اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے‘‘          (  بخاری شریف: حدیث نمبر۶۰۹۴) 

اللہ اور اسکے رسول ﷺ پر جھوٹ باندھنا

متعد  احادیث  میں  نبی کریم   پر  افترا  (جھوٹ)  کی  مذمت  کی  گیٴ  ہے،  اس  کی  حرمت  کو  واضح  کیا  گیا  ہے  اور  ایسا  کرنے  والے  کے  بُرے  انجام  کو  بیان  کیا  گیا  ہے۔ بخاری   و  مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے  منقول ہے:
’’ بلا شبہ  مجھ  پر  جھوٹ  باندھنا  کسی  اور  پر  جھوٹ  باندھنے  کی طرح  نہیں  ہے۔جس  نے  مجھ  پر  عمدأَ  جھوٹ  باندھا،  وہ  اپنا  ٹھکانا  جہنم  میں  بنا لے‘‘ ) صحیح بخاری ۱۲۹۱ و  صحیح مسلم ۷(

اس  حدیث کی  شرح   میں علامہ قرطبی نے تحریر کیا ہے:۔
آنحضرت ﷺ پر  جھوٹ  بولنے  کی  سزا ز یادہ  سخت  ہے،  کیونکہ  ایسا  کرنے  میں  جھوٹ  بولنے  کے  بارے  میں  دیدہ  دلیری  زیادہ  ہے،  اور  اس کا  نقصان  بھی  زیادہ  ہے  کیونکہ  یہ  درحقیقت  اپنی  طرف  سے  شریت  سازی  یا  اپنی  طرف  سے  اس  میں  تبد یلی  کرنا  ہے۔  آپ ﷺ کی  طرف  جھوٹی  بات  منصوب  کرنا  اللہ سبحانہ‘و   تعالیٰ  کی  طرف  جھوٹی  بات  کی نسبت  کرنا  ہے اور   اللہ سبحانہ‘و   تعالیٰ   پر  جھوٹ  باندھنے  والے  پر  درج  ذیل  آیت  میں  شدید  تنقید  کی  گیٴ  ہے:

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ١ؕ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ   (۲۱)  (سورة الأنعام(
ترجمہ:    اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے، جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتیں جھٹلائے، بیشک ظالم فلاح نہ پائیں گے۔

وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَى اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ١ؕ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ (٦٠)   سورة الزمر
ترجمہ:    اور جن  لوگوں  نے  اللہ  پر  جھوٹ  باندھا  ہے  تو  آپ  دیکھیں  گے  کہ  قیامت  کے  دن  ان  کے  چہرے  سیاه  ہوگئے  ہوں  گے  کیا  تکبر  کرنے  والوں  کا ٹھکانا  جہنم  میں نہیں؟

سب سے بڑا جھوٹ

توحیدِ  باری تعالیٰ   کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے   جبکہ شرک و  الحاد  سب سے بڑا  جھوٹ  ہے۔
هٰۤؤُلَآءِ  قَوْمُنَا  اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ لَوْ لَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَيِّنٍ١ؕ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا  )١٥)  سورة الكهف
ترجمہ:    یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟

لیکن آج مسلمانوں  کی اکثریت نے بھی  دشمنانِ اسلام  ہنود‘  یہود  و  نصاریٰ  کے  نقش  قدم  پہ  چلتے  ہوئے  توحیدِ  باری تعالیٰ  کو چھوڑ  کر  ہر  طرح  کی  شرک  میں  غرق  ہیں۔
نماز میں ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ‘‘  پڑھتا  ہے  اور  سلام  پھیرتے  ہی  یا علی  یا غوث یا خواجہ  یا  داتا  وغیرہ کو دعا میں پکارتا ہے ۔ اللہ کے بندوں! قرآن و حدیث سے کویٴ  ایک بھی دعا دکھا دو جس میں یا علی یا غوث یا خواجہ  یا  داتا  وغیرہ  ہو۔  پھر  کہتے ہو یہ شرک نہیں ‘ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوگا۔

بزرگوں کی قبروں پر قبے تعمیر کرنا ‘ان پر مجاوری کرنا ‘ ان کی تزئین وآرائش کرنا ،ان پر چراغاں کرنا ‘چادر و پھول چڑھانا ‘انہیں غسل دینا ‘عرس اور میلے لگانا ‘ان پر نذرونیاز چڑھانا ‘وہاں کھانا اور شیرینی تقسیم کرنا ‘جانور ذبح کرنا ‘وہاں رکوع وسجود کرنا‘ ہاتھ باندھ کر با ادب کھڑے ہونا ‘ ان سے مرادیں مانگنا ‘  تکلیف اورمصیبت میں انہیں پکارنا ‘ اِن سے اولاد اور  رزق وغیرہ مانگنا‘ ان کے نام کی چوٹی رکھنا ‘ان کے نام کے دھاگے باندھنا ‘ ان کے نام کی دھائی دینا ‘ مزاروں کا طواف کرنا ‘ طواف کے بعد قربانی کرنا اور سر کے بال مونڈوانا ‘ مقبروں کوچومنا چاٹنا‘ بوسہ دینا ‘وہاں سے خاکِ شفا حاصل کرنا ‘ننگے قدم مزار تک پیدل چل کرجانا اور الٹے پاؤں واپس پلٹنا ‘ ڈھول تاشے بجانا ‘ نشہ کرنا‘ ناچنا گانا  اور اخلاق باختہ حرکتیں کرنا وغیرہ وغیرہ شرکیہ افعال ہر چھوٹے بڑے مزار پر روز مرہ کا معمول ہیں ۔ لیکن تم  کہتے ہو یہ شرک نہیں ‘ اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوگا۔

اس سب سے بڑا جھوٹ  اور سب سے بڑا جھوٹ  ظلم  ’’  شرک کا زہر  ‘‘ جس طرح   پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اس سے اس قوم کی ہلاکت اور بربادی  بہت قریب ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عقیدہ توحید کا شعور رکھنے والے لوگ انفرادی اور اجتماعی ‘ہر سطح پر شرک کے خلاف جہا دکا عز م کریں ‘ انفرادی سطح پر سب سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں اہل وعیال پر توجہ دیں جن کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا واضح حکم بھی ہے ۔

اس سے بڑا جھوٹ  اور ظلم  ’’ شرک کا زہر ‘‘ جس طرح   پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے‘ اس سے اس قوم کی ہلاکت اور بربادی  بہت قریب ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عقیدہ توحید کا شعور رکھنے والے لوگ انفرادی و اجتماعی‘ ہر سطح پر شرک کے خلاف جہا دکا عز م کریں انفرادی سطح پر سب سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں اہل وعیال پر توجہ دیں جن کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا واضح حکم بھی ہے :

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰٓىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ    (٦)  سورة التحريم
ترجمہ:    اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا ﻻتے ہیں۔

اس کے بعد اپنے  عزیز و اقارب  دوست  و احباب  پر  توجہ  دی  جائے  اور  پھر  گلی گلی ‘ محلہ محلہ اوربستی بستی  جا کر  عقیدہ  توحید  کی  دعوت  پیش  کی  جائے  لوگوں  کو  شرک  کی  ہلاکت  خیزیوں  اور تباہ  کاریوں  سے  آگاہ  کیا جائے ۔
اجتماعی  سطح  پر  ملک  میں  اگر  کوئی  گر وہ  یا  جماعت  خالص  توحید  کی  بنیاد  پر  غلبہ  اسلام  کے لئے  جدوجہد کررہی  ہو  تو  اس  کے  ساتھ  تعاون  کیا  جائے  کوئی  فرد  یا  ادارہ  یہ  مقدس  فریضہ  انجام  دے  رہا  ہو  تو  اس  کے  ساتھ  تعاون  کیا جائے ‘ کوئی  اخبار ‘ جریدہ  یا  رسالہ  اس  کارِ خیر  میں مصروف  ہو  تو  اس  کے  ساتھ  تعاون  کیا  جائے ‘ شرک  اپنے  سامنے  ہوتے  دیکھنا  اور  پھر  اسے  روکنے  یا  مٹانے  کے  لئے  جدوجہد  نہ  کرنا  سراسر  اﷲتعالیٰ  کے  عذاب  کو  دعوت  دینا  ہے  ایک  حدیث  شریف  میں  ارشاد  مبارک  ہے:

’’جب  لوگ  کوئی  خلاف  شرع  کام  ہوتے  دیکھیں  اور  اسے  نہ  روکیں  تو  قریب  ہے  کہ  اﷲ تعالیٰ  ان  سب  پر  عذاب  نازل  فرم ادے ‘‘۔  (ابن ماجہ ‘ترمذی)

 ایک  دوسری  حدیث  میں  ارشاد  نبویﷺ ہے: 

’’اس  ذات  کی  قسم  جسکے  ہاتھ  میں  میری  جان  ہے  تم  دوسروں  کو  نیکی  کا  حکم  دیتے  رہو‘ اور  برائی  سے   روکتے  رہو  ورنہ  اﷲتعالیٰ  تم  پر  عذاب  نازل  کردے گا ‘ پھر  تم  اس  سے  دعا  کرو گے  تو  وہ  تمہاری  دعا  بھی  قبول  نہیں  کرے  گا ‘‘۔ (ترمذی)

غور  فرمائیے  اگر  عام  گناہوں  سے  لوگوں  کو  نہ  روکنے  پر  اﷲتعالیٰ  کا عذاب  نازل  ہوسکتا  ہے  تو  پھر  شرک  جسے  خود  اﷲتعالیٰ  نے  سب  سے  بڑ ا گناہ  (ظلم ) قرار  دیا  ہے  ------  کو  نہ  روکنے  پر  عذاب  کیوں  نازل  نہ  ہوگا ؟ رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے :

’’ جو  شخص  خلاف  شرع  کام  ہوتا  دیکھے  تو  اسے  چاہئے  کہ  وہ  اسے  ہاتھ  سے  روکے ‘ اگر  اس  کی  طاقت  نہ  ہو  تو  پھر  زبان  سے  روکے  اور  اگر  اس  کی  بھی  طاقت  نہ  ہو  تو  تو  پھر  دل  سے  سے  ہی  برا  جانے ‘ اور  یہ  ایمان  کا   کمزور   ترین   درجہ   ہے ‘‘۔   (مسلم شریف)

 پس  اے  اہل  ایمان ! اپنے  آپ  کو  اﷲتعالیٰ  کے  عذاب  سے  بچاؤ ‘ اور  ہر  حال  میں  شرک  کے  خلاف  جہاد  کرنے  کے  لئے  اٹھ  کھڑے  ہو ‘ جو  جان  دے  سکتا  ہے  وہ  جان  سے  کرے ‘ جو  مال  سے  کر سکتا  ہو  وہ  مال  سے  کرے ‘ جو  ہاتھ  سے  کر سکتا  ہو  وہ  ہاتھ  سے  کرے ‘ جو  زبان  سے  کرسکتا  ہوں  وہ  زبان  سے  کرے ‘ جو  قلم  سے  کر سکتا  ہوں  وہ  قلم  سے  کرے ۔ ارشاد  باری  تعالیٰ  ہے ۔

اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۴۱  (۴۱)  سورة التوبة
ترجمہ:نکلو‘خواہ ہلکے ہو یابوجھل اور جہاد کرو اﷲتعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ‘یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگرتم جانو۔


اس  مضمون  کی  تیاری میں استفادہ  حاصل کیا  گیا:
1.        پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی کی کتاب : جھوٹ کی سنگینی اور اس کے اقسام
2.        فضیلۃ الشیخ محمد اقبال کیلانی کی کتاب: توحید اور دینِ خانقانیت