Wednesday, April 2, 2014

’’ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۔ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ‘‘

جانور بھی خطرات بھانپ کر کان کھڑے کر لیتے ہیں۔ ہم تو پھر اشرف المخلوکات ہیں۔ آج ہمارے کان بھی کھڑے ہیں۔
آج کے والدین اپنے بچوں کی مستقبل کے زیادہ فکر مند ہیں۔
ہم سب ہی چاہتے ہیں ہمارے بچوں کی مستقبل تابناک ہو۔
اس کے لئے ہم جو کر سکتے ہیں اپنی بساط بھر ساری زندگی کرتے رہتے ہیں۔
ہم میں جو مسلمان ہیں اور اسلامی تعلیمات پر کار بند ہیں اپنے بچے کو ایک اچھا مسلمان بنانے کی بھی پوری کوشش کرتے ہیں۔
بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات  کے مطابق ہم آذان اور اقامت سے اُسے اِس دنیا میں خوش آمدید کہتے ہیں۔  ہم اپنے بچے کیلئے اچھا سا نام تجویز کرتے ہیں۔  بچے کی صحت کا پورا پورا خیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔  مائیں رات کو جاگتیں ہیں اور بچے کی ایک ایک لمحے کا خیال رکھتیں ہیں۔ بچے کو ہر سحولیاتِ زندگی بہم پہنچانا ہمارا اولین مقصد ہوتا ہے‘ اس کیلئے چاہے ہمیں اپنے والدین کے حقوق ہی کیوں نہ غصب کرنا پڑے۔
اب تو بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی سٹی اسکول‘ بیکون ہاوٴس جیسے تعلیمی اداروں میں بھاری رقم دے کر ریجسٹریشن بھی کرانی ہوتی ہے۔  بچہ ابھی تین سال ہی کا ہوا ہوتا ہے کہ بچے کی مستقبل سنوارنے کی فکر میں دیر تک سونے والی مائیں علی لصبح اپنی نیندیں خراب کرکے بچے کو اسکول بھیجنے کیلئے اپنے دروازے پہ کھڑی نظر آتیں ہیں۔ صرف ایک ہی فکر ہے ہمارے بچے کی ’مستقبل‘ بن جائے۔ لیکن یہ ’ مستقبل‘ کتنے دنوں کی ہے‘ ساٹھ ستر یا بہت زیادہ سو سال۔ جس میں 20 سے 25 سال اِس مستقبل کو بننے میں لگے گا اور باقی زیادہ سے زیادہ 35 ‘ 40 یا 50 سال وہ بچہ عیش کرے گا۔ اس 50 سالوں کی مستقبل کیلئے ہم کتنا کوشاں ہیں۔ اُس پر اُمید کامل نہیں کہ مستقبل بن ہی جائے اور ہر بچہ ڈاکٹر‘ انجنیر‘ ایم بی اے‘ سائنسدان وغیرہ یا ہم جو چاہتے ہیں وہ بن ہی جائے۔
لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ ہم اپنے بچے کی دائمی اور ابدی مستقبل کی فکربھی نہیں  کرتے۔
ہم بچے کو قرآن بھی پڑھاتے ہیں۔ ایک قاری رکھ لیتے ہیں جو مہینے بھر آکر قرآن پڑھاتا ہے اور اسے اتنا دیتے ہیں جتنے میں ہم ایک وقت باہر کھانا بھی نہیں کھا سکتے اور اس پر احسان بھی جتاتے ہیں۔ ہمارے احسانوں میں دبا اور غربت کا مارا قاری کیا تعلیم دے گا اور کیا کردار سازی کرے گا ہمارے بچے کی۔۔۔۔ ہماری یہ سونچ کہاں؟
ہم میں جو کچھ زیادہ دین دار ہیں وہ بچے کو قرآن حفظ بھی کراتے ہیں‘ کیونکہ اس میں ہمارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ بچہ حافظِ قرآن ہو گیا تو ہم سیدھے جنت میں جائیں گے‘ چاہے ہم کچھ بھی کرتے رہیں ۔۔۔
--- چاہے ہم توحید کو نہ سمجھیں اور
--- چاہے ہم ساری زندگی شرک میں ہی کیوں نہ ڈوبے رہیں؟ مزاروں پہ سجدے کرتے رہیں ؟
--- اپنی نمازوں میں  ’’ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ‘‘  کی رٹ لگاتے رہیں اور پھر  ہاتھ اُٹھا کر یا غوث ‘ یا خواجہ‘ یا داتا یا علی ہی کیوں نہ پکاریں؟
ہم سات سال کی عمر میں اپنے بچے کو نماز بھی سکھاتے ہیں اور دس سال کی عمر سے نماز نہ پڑھنے پہ اُنہیں سرزنش بھی کرتے ہیں۔
جب بچہ روزہ رکھ سکنے کی طاقت کو پہنچ جاتا ہے تو اسے روزہ بھی رکھواتے ہیں اور بوغت کے بعد ہمارے بچے ہر سال روزہ بھی رکھتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو اِخلاقیات اور حلال حرام کی تعلیم بھی دیتے ہیں ‘ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔
اللہ اور رسول کا محبت بھی انکے دلوں میں ڈالتے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ
اللہ ہی ہمارا اور پورے کائینات کا خالق‘ مالک اور رب ہے اور ’ اللہ نے ہمیں صرف اپنے عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔‘ اور انہیں عبادت کا مفہوم بھی سمجھاتے ہیں۔
’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦  اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔  ‘‘   سورة الذاريات
اللہ کے حقوق اور اللہ پر بندے کے حقوق کے بارے میں ہم اپنے بچوں کو معاز بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی بیان کرتے ہیں:
''حضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں (سواری پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور
 میرے اور آپ کے بیچ میں صرف کجاوے کی آخری حصہ تھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ بن جبل،
میں نے کہا: لبیک و سعدیک‘ یارسول اللہ،
 پھر آپ ﷺ کچھ دیر چلتے رہے، پھر فرمایا:  اے معاذ بن جبل،
 میں نے کہا: لبیک و سعدیک ‘ یارسول اللہ،
 پھر آپ ﷺ کچھ دیر چلتے رہے۔ پھر فرمایا:  اے معاذ بن جبل،
میں نے کہا: لبیک و سعدیک ‘ یارسول اللہ،
آپﷺ نے پوچھا: تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے؟
میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپﷺ نے بتایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔
پھر آپ ﷺ کچھ دیر چلے۔ پھر کہا: اے معاذ بن جبل،
میں نے کہا: لبیک و سعدیک ‘ یارسول اللہ،
آپ  ﷺنے فرمایا: جانتے ہو، جب اس کے بندے یہ کر لیں تو بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟
 میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
آپ ﷺنے فرمایا: یہ کہ وہ انھیں عذاب نہ دے۔''  (بخاری و مسلم)        
اس کے علاوہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نوجوان صحابی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جن دس باتوں کی وصیت کی تھی ہم اپنے بچوں کو وہ وصیت بھی یاد دلاتے ہیں:
1.      شرک نہ کرنا‘ خواہ کویٴ تجھے قتل کر دے یا جلا دے۔
2.      والدین کو تکلیف نہ پہنچانا۔
3.      فرض نماز کبھی ترک نہ کرنا‘ کیونکہ جو شخص قصداً نماز چھوڑتا ہے اللہ اس کے ذمہ داری سے بری ہو جاتا ہے۔
4.      شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
5.       گناہ میں مبتلا نہ ہونا‘ کیونکہ گناہ میں مبتلا ہونے والے پر اللہ کا غصہ حلال ہو جاتا ہے۔
6.      جہاد میں پیٹھ پھیر کر نہ بھاگنا۔
7.      کسی علاقے میں بیماری کی وبا پھوٹ پڑے تو ثابت قدم رہنا۔
8.      اولاد کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
9.      اولاد کو ادب سکھانا۔
10.  اولاد کے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا کرنا۔       (مسند امام احمد)
اور ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرح بچے کی معصوم ذہن  میں دینی حقائق نقش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں:
ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:
’’ اے بچے (بیٹے) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں
تم اللہ کے حقوق اللہ کا خیال رکھو تو اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے
اور جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو
اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو
اور اس بات کو جان لو کے اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں صرف وہی فائدہ پہنچاسکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔ ‘‘ (ترمذی)۔۔۔ٖ
ہم اپنے بچوں انبیاء علیہ السلاۃ و السلام اور اللہ کے دیگر محبوب بندوں نے اپنے بچوں کو جو سکھایا تھا وہ سبق بھی سکھاتے ہیں :
جیسا کہ 
جب یعقوب علیھ السّلام وقت وفات اپنے بیٹوں  سے پوچھا کہ
’’ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي ۔   میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ‘‘ 
تو سب نے جواب دیا :
’’  نَعْبُدُ إِلَـٰهَكَ وَإِلَـٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٣  سورة البقرة
ہم عبادت کریں گے آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابرہیم  اور اسماعیل  اور اسحاق  (علیھم السلام) کے معبود کی جو واحد و یکتا معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار (مسلم) رہیں گے۔‘‘
                       
2-  اور اسی طرح لقمان حکیم کی وصیت بھی یاد دلاتے رہتے ہیں:
’’ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ  ﴿١٣﴾ سورة لقمان
میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘


نبی کریم ﷺنے حقوق اللہ بیان کرتے ہوئے یا کسی کو وصیت کرتے ہوئے ہمیشہ شرک سے بچنے کی تلقین کو ہی مقدم رکھا۔ آپ ﷺ  سے جب بھی کوئی بعیت کرتا  آپ ﷺ کی پہلی نصیحت  یہی ہوتی ’’ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا‘‘۔
 
قرآن میں بچے کی تربیت یا وصیت میں انبیاء  علیہ السلاۃ السلام ہوں یا اللہ کے  محبوب بندے لقمان حکیم جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ  نے اپنے فضل سے حکمت عطا کی تھی' اپنے بچے کو زندگی کی ہر موڑ پر شرک سے بچنے کی تلقین ہی کی ہے۔
اگر ہم بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم‘ انبیاء علیہ السلاۃ و السلام اور اللہ کے چنیدہ بندوں کے طرز پہ اپنے بچوں کو  زندگی کی ہر موڑ پر شرک سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں تو ہم انکی دائمی کامیابی کے لئے کوشاں ہیں اور انشاء اللہ ہمارے بچے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونگیں۔
لیکن آج مسلمانوں میں کچھ نام نہاد مفکر ہیں جو کہتے ہیں ’’ مسلمان شرک کر ہی نہیں سکتا ‘‘ اس لئے شرک کے بارے میں سونچنا چھوڑ دو۔  ہمارے حیلے بہانے سنو اور ہمارے ساتھ مل کر اللہ کے ساتھ شرک کرتے رہو۔   شرک کی جن باتوں کا قرآن و حدیث میں بیان ہے اُن پہ کان نہ دھرو۔  نہ ہی خود بچو اور نہ ہی اپنے بچوں کی فکر کرو۔
لِلّٰہ !  انکی باتوں میں نہ آئیے۔
اگر یہ اِس بات کا اقرار کر لیں کہ آج مسلمانوں کی اکثریت شرک میں مبتلا ہے اور یہی اُمت مسلمہ کی تنزلی کی اصل سبب ہے  تو ان لوگوں نے شرک کی جو فیکٹریاں لگا رکھیں ہیں وہ کیسے چلے گی۔
یہ صرف اپنی دنیا کیلئے ایسا کہتے ہیں ۔۔۔  دنیاوی نام و نمود کیلئے انہیں اپنی شرک کی فیکٹریاں چلانی ہے ۔۔۔  
یہ شیطان کے چیلے ہیں ۔۔۔  ان کے پاس جو علم ہے وہ شیطانی علم ہے  ۔۔۔  یہ اپنی شیطانی علم سے قرآن کی باتوں کو پھیرتے ہیں اور احادیث کی غلط ترجمانی کرتے ہیں  ۔۔۔  خود بھی اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ شرک کرکے گناہِ عظیم کے مرتکب ہوتے ہیں اور عام مسلمانوں کو بھی اسی چکر میں پھانستے ہیں  ۔۔۔ 
جانور بھی خطرات بھانپ کر کان کھڑے کر لیتے ہیں۔ اپنے کان کھڑے کیجئے۔ خطرات کو بھانپئے اور اپنے اِرد گِرد پھیلے شرک کو سمجھئے  ۔۔۔   خود بھی بچئے‘ اپنے اہل و عیال‘ دوست احباب اور دیگر مسلمانوں کو بھی بچائیے اور شرک کا قلع قمع کیجئے۔
اللہ وحدہ لاشریک ہمیں‘ ہمارے اہل و عیال ‘ دوست احباب‘  ہماری آئندہ نسلوں کو اور تمام مسلمانوں کو شرک جیسی گناہِ عظیم سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment