Wednesday, May 3, 2017

اصل مسٔلہ

اصل مسٔلہ

آج  وطنِ عزیز میں اور قریب ہر مسلم ملک میں امن و امان کا جو مسٔلہ ہے‘ دہشت گردی و خون خرابہ جو عام ہے وہ کس کا پیدا کردہ ہے ؟

کیا یہود گُس آئیے ہیں یا نصرانی  و ہنود نے یہ انارکی پھیلا رکھی ہے ؟  اگر یہ ان کی سازشوں کا نتیجہ ہے تو بھی اِن سازشوں  میں ملوث ہونے والے کوئی غیر تو نہیں، مسلمان ہی ہیں۔

یہ کون ہیں جو مسلم ملک کے مسلم معاشرے میں فساد برپا کر رہے ہیں‘ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رہے ہیں ؟

یہ کون ہیں جو مسجدوں‘ اسکولوں‘ بازاروں‘ چوراہوں وغیرہ پہ خود کش حملہ و دھماکہ  کرکے آنِ واحد میں سیکڑوں مسلمانوں کی جان لے لیتے ہیں ؟

یہ کون ہیں جو اپنے ہی لوگوں کوٹارگیٹ کلنگ پہ مامور کیا ہوا ہے اور یہ کون ہیں جو اُن کے اشاروں  پہ ٹارگیٹ کلنگ کرتے پھرتے ہیں ؟

یہ کون ہیں جو نئی نسل کے ہاتھوں میں آتش گیر اسلحہ  تھما کر دہشت گردی کیلئے انہیں ملک کے گلی کوچوں میں آوارہ کتوں کی طرح چھوڑ دیا ہے ؟

یہ کون ہیں جو کلاشنکوف ‘ پستول،  دستی بم وغیرہ لئے پھرتے ہیں اور آنِ واحد میں بچہ بوڑھا جون کسی بھی مسلمان کو ان  کے عزیزوں کے سامنے  بھُون ڈالتے ہیں ؟

یہ کون ہیں جو بنکوں‘ دوکانوں و مکانوں میں دن دھاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں اور مزاحمت کرنے ولوں کو قتل کر دیتے ہیں ؟

یہ کون ہیں جو گلی کوچوں‘ سڑکوں پہ و چوراہوں میں دن دھاڑے لوگوں کو لُوٹتے ہیں اور ذرا سی مزاحمت کرنے پر انہیں بے دریغ قتل کر دیتے ہیں ؟

یہ کون ہیں جو بسوں پہ لوگوں کے موبائل فون اور پرس چھینتے ہیں اور مزاحمت کرنے والوں کو بھری بس میں گولی مار دیتے ہیں ؟

یہ کون لوگ ہیں جو اپنی ماں بہن ہونے کے باوجود دوسروں کی ماں بہن بہو بیٹیوں کو سر راہ چھیڑتے ہیں اور ان کی عزت  تارتار کرتے ہیں‘ جوان بھائی اور بوڑے باپ کے سامنے جوان بہن و بیٹی کی ریپ / عصمت دری کرنے سے نہیں چُوکتے ؟  

یہ کون لوگ ہیں جو اپنی نفس کو آسودہ  کرنے کے لیے ہر طرح کی کرپشن میں ملوث ہیں، رشوت خوری،  چوری،  ڈکیتی،   شراب نوشی،  بے حیائی، فحاشی، عیاشی،  زناکاری،  بدکاری وغیرہ  وہ کون سی برائی ہے جو یہ لوگ نہیں کرتے ؟

عجب بات ہے۔

یہ یہود و نصاریٰ یا ہنود نہیں ہیں۔ یہ باہر سے آنے والے ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ یہ سب باہر سے پل بڑھ کر‘ باہر سے ٹرینگ لے کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے نہیں آئے۔ یہ اپنے ملک کے ہی لوگ ہیں۔

افسوس کہ

یہ سب بھی مسلمان ہیں‘

یہ سب ہی مسلم ملک میں مسلمانوں کے گھروں میں  پیدا ہونے والے مسلم گھرانے اور مسلم معاشرے میں پروان چڑھنے والے مسلمان  ہیں۔

کیا ان سب کو اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت کے بارے میں نہیں بتایا گیا ؟

جی اصل مسٔلہ  ہی یہی ہے۔

مسلم ملک و معاشرے اور گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اِن عقائد  کے بارے میں انہیں صحیح علم نہیں دیا گیا اور نہ ان میں عقیدہ و ایمان کی پختگی ہے‘ نہ انہیں اللہ کا خوف ہے‘ نہ ان کا آخرت پر ایمان ہے اور نہ ہی یہ رسول ﷺ کو ماننے و اتباع کرنے والے ہیں۔

تحریر : محمد اجمل خان
ہہہہہہہہہہہہپپپہہہپپپپپہلہہ

Sunday, September 28, 2014

حُسنِ ظَن باللہ Expectations with Allah




اللہ تعالٰی سے اچھا گمان / حُسنِ ظَن باللہ
الحمد للہ ! ہم سب مسلمان ہیں۔
ہم سب اپنے رب کے بارے میں حُسن ظَن رکھتے ہیں۔
اللہ سے حُسن ظَن رکھنا اللہ پر ہمارے ایمان کی بنیاد ہے‘اس کی جود و سخا‘ اسکی ہیبت‘ اسکے قادر مطلق ہونے پر یقین ہمارے عقیدے کا لازمی جز ہے۔
اللہ کے ساتھ حُسنِ ظن سے بندے کاایمان  بڑھتا ہے اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔
یہ حُسنِ ظَن باللہ  ہی ہے جو مومن بندے کو ہمہ وقت اپنے رب کی  یاد دلاتی رہتی ہے اور گناہ و معصیت کے طرف اُٹھتے قدم کو روک دیتی ہے‘ رب کی نا فرمانی کرنے سے ڈراتی ہے اور اللہ و رسول اللہ ﷺ کی فرمانبردار بناتی ہے۔
لیکن آج مسلم معاشرے میں ایسے بے شمار لوگ ملتے ہیں جو
۔۔۔۔   نماز  نہیں پڑھتے ‘
۔۔۔۔   روزے نہیں رکھتے‘
۔۔۔۔   زکوٰۃ   نہیں دیتے‘
۔۔۔۔   حج  فرض ہونے کے باوجود حج ادا نہیں کرتے‘
۔۔۔۔   حقوق اللہ کیا ہے ؟  حقوق لعباد کیا ہے ؟  ۔۔۔ کچھ پرواہ نہیں‘
۔۔۔۔   نا فرمانیوں پر نا فرمانیاں‘ گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں‘
۔۔۔۔   ظلم‘ زیادتی و حرام کے کاموں میں ہر دم مگن رہتے ہیں‘
اور جب کوئی انہیں اللہ کی نا فرمانیوں پر‘ ظلم و زیادتی پر اور دیگر گناہوں پر ٹوکتا ہے تو بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں
’’ اللہ کریم ہے‘ اللہ غفورالرحیم ہے وغیرہ وغیرہ ‘‘
ہم بھی اپنے رب سے حُسنِ ظن  رکھتے ہیں۔ اللہ کے رحیم و کریم اور غفورالرحیم ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں۔
لیکن کیا اپنے رب کے بارے میں صرف حُسنِ ظَن رکھنا ہی کافی ہے ؟
آج مسلم ملک و معاشرے میں بسنے والے بے شمار مسلمانوں کا اپنے رب کے بارے میں یہ کیسا حُسنِ ظَن ہے جو انہیں اپنے رب کی نافرمانی سے اور اسکے بندوں پر ظلم و زیادتی کرنے سے نہیں روکتی۔  رب کے بارے میں حُسنِ ظَن اگر رب کا فرمانبردار نہ بنائے پھر یہ حُسنِ ظَن کیسا؟  کیا ایسا ہی حُسنِ ظَن یہ لوگ  اپنے آجر( Employer ) سے رکھ سکتے ہیں‘ جو کام کئے بغیر انہیں اجر دے۔
پھراِن لوگوں نے اپنے رب کو سمجھا کیا ہے؟؟؟

فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨٧  سورة الصافات
’’  تو یہ تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟؟؟ ‘‘

ایسے لوگوں کو اپنی ایمان کی خیر منانی چاہئے جوکہنے کو اللہ کے  غفورالرحیم ہونے کا حُسنِ ظَن رکھتے ہیں لیکن اللہ کے فرمانبرداری کے بجائے نافرمانیاں کرتے ہیں  اور گناہ  و معصیت کو نہیں چھوڑتے۔
کہیں ایسا تو نہیں :

قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ  ( سورة المائدة ۴۱)
’’ جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے۔ ‘‘

اگر یہ لوگ اپنے آپ کو ایمان والے سمجھتے ہیں تو انہیں اپنی اس ڈھٹائی و ہٹ دھرمی پر اللہ سے ڈرنا چاہئے اور معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ قھار و جبار بھی ہے جو جب چاہے ان کی گرفت کر سکتا ہے۔ کیا اُنہیں اُس دن سے ڈر نہیں لگتا جب اُنہیں اُس قھار و جبار کے سامنے حاضر ہونا ہوگا یا ان کا اُس دن پر ایمان نہیں ہے۔

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴿٤٨﴾ سورة ابراهيم

’’ ڈراؤ اِنہیں اُس دن سے جبکہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔‘‘

اور جب انسان کے اپنے کان اور اپنی آنکھیں اور اپنے جسم کی کھالیں اسکی کرتوت کی گواہی دیں گی۔

وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَـٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّـهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ ﴿٢٢  سورة فصلت

’’ اور تم ( اپنی بد اعمالیاں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی‘ ہاں تم یہ سمجھتے رہے کہ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو اُس میں بہت سے اعمال سے اللہ بے خبر ہے۔‘‘

اور پھر بتایا جائے گا کہ تمہارا یہی سُوءِ ظن یعنی برا گمان جو تم اپنے رب کے بارے میں رکھتے تھے، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے۔

وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٢٣  سورة فصلت

’’ تمہارا یہی گمان جو تم نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا، تمہیں لے ڈوبا اور اسی کی بدولت تم خسارے میں پڑ گئے"

اللہ سبحانہ و تعالٰی کے ساتھ حُسِ ظن یا اچھا گمان تو اُسی وقت فائدہ دے گا جب اپنے گناہوں پر پشیماں ہو۱ جائے‘  گناہوں کو چھوڑا جائے‘ اور اللہ کے حضور سچی توبہ کیا جائے اور اس رب ذوالجلال و الاکرام کی فرمانبرداری اختیار کی جائے۔
پس اللہ کے ساتھ حُسنِ ظَن  یا نیک گمان رکھنے والوں کو چاہئے کہ وہ اخلاص کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس سے بخشش کے طلبگار ہوں‘ ظلم زیادتی اور حرام کاری کو چھوڑکر نیکی میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں تو انشاءاللہ اپنے گمان کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالٰی کو رحیم و کریم اور غفورالرحیم ہی پائیں گے ورنہ یاد رہے کہ وہ قھار و جبار بھی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں، جیسا کہ  بخاری و مسلم میں  مروی اس حدیثِ قدسی میں بیان ہے:

"أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً "[رواہ البخاري والمسلم]

’’میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتاہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے، اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں،  اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرے تو میں اُسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اُس (جماعت)سے بہتر ہے، اور اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آئے تو میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آئے تو میں دونوں ہاتھوں کے پھیلانے کے برابر اُس کے قریب آتا ہوں ، اور اگر وہ چل کر میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اُس کے پاس آتا ہوں۔‘‘

پس غور کیجیے کہ ہمارا رب کس قدر رحیم و عادل ہے... " أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ" ’’ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتاہوں۔‘‘

لیکن اللہ رب العزت نے بھی اِس گمان کو عمل کے ساتھ ہی منسلک کیا ہے۔ اللہ کے ساتھ  حُسنِ ظَن  در حقیقت حُسنِ عمل کا نام ہے۔ پس اللہ کی رحمت و بخشش کے طلبگار مومن بندوں کو  اللہ سے حُسنِ ظَن رکھنےکے  ساتھ ساتھ حُسن عمل کرنا بھی   لازمی ہے اور اعمالِ صالح کیلئے ضروری ہے کہ  بندہ حُسنِ ظَن باللہ اور أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ کو ساتھ ساتھ لیکر چلے۔

وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿١٣٢ سورة آل عمران
" اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کی جائے۔ "

لہذا  اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے والے ہی اللہ سے حُسنِ ظَن رکھنے والے ہیں اور اللہ بھی انکے حُسن ظَن کے مطابق ان سے معاملہ کرے گا‘ ان پر رحم کرے گا‘ انہیں اپنے بخشش سے نوازے گا اور اپنی رحمت سے اپنی سب سے بڑی نعمت جنت میں داخل کرے گا۔.

مومن بندے کو ہر وقت ہر لمحہ اپنے رب کے ساتھ حُسنِ ظَن رکھنا چاہئے اور آلام و مصائب کے وقت تو حُسنِ ظَن باللہ اور بڑھ جانا چاہئے۔
رسول اللہ ﷺ  اپنے وصال سے تین روز قبل اُمت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

’’ تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو اِلاَّ یہ کہ وہ اپنے رب کے ساتھ حُسنِ ظَن رکھتا ہو۔‘‘

اور موت کی سختی کے وقت اللہ کے بارے میں حُسنِ ظَن رکھنا اسی بندے کو ممکن ہوگا جوموت سے پہلے اللہ سے حُسنِ ظَن رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ  ﷺ کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ اعمالِ صالح کے ساتھ اللہ کے بارے میں حُسنِ ظَن رکھنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔  اعمالِ صالح کے ساتھ اللہ سےحُسنِ ظَن  رکھنے سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔

اے رب ہمارے ! ہم تجھ سے حُسنِ ظَن رکھتے ہیں اور اس حُسنِ ظَن کی وجہ سے ہمیں اپنی اطاعت اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی اطاعت میں زندگی گزارنے والا بنا دے۔ آمین یا رب العالمین۔

Saturday, September 20, 2014

امن و امان بمقابلہ اسلامی عقائد islami aqeedah vs peace

امن و امان بمقابلہ اسلامی عقائد

آج  وطنِ عزیز میں اور قریب ہر مسلم ملک میں امن و امان کا جو مسٔلہ ہے‘ دہشت گردی و خون خرابہ جو عام ہے وہ کس کا پیدا کردہ ہے ؟ کیا یہود گُس آئیے ہیں یا نصرانی  و ہنود نے یہ انارکی پھیلا رکھی ہے ؟  اگر یہ ان کی سازشوں کا نتیجہ ہے تو بھی اِن سازشوں  میں ملوث ہونے والے کوئی غیر تو نہیں، مسلمان ہی ہیں۔

یہ کون ہیں جو مسلم ملک کے مسلم معاشرے میں فساد برپا کر رہے ہیں‘ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں اور مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رہے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو مسجدوں‘ اسکولوں‘ بازاروں‘ چوراہوں وغیرہ پہ خود کش حملہ و دھماکہ  کرکے آنِ واحد میں سیکڑوں مسلمانوں کی جان لے لیتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو اپنے ہی لوگوں کوٹارگیٹ کلنگ پہ مامور کیا ہوا ہے اور یہ کون ہیں جو اُن کے اشاروں  پہ ٹارگیٹ کلنگ کرتے پھرتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو نئی نسل کے ہاتھوں میں آتش گیر اسلحہ  تھما کر دہشت گردی کیلئے انہیں ملک کے گلی کوچوں میں آوارہ کتوں کی طرح چھوڑ دیا ہے ؟
یہ کون ہیں جو کلاشنکوف ‘ پستول،  دستی بم وغیرہ لئے پھرتے ہیں اور آنِ واحد میں بچہ بوڑھا جون کسی بھی مسلمان کو ان  کے عزیزوں کے سامنے  بھُون ڈالتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو بنکوں‘ دوکانوں و مکانوں میں دن دھاڑے ڈاکہ ڈالتے ہیں اور مزاحمت کرنے ولوں کو قتل کر دیتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو گلی کوچوں‘ سڑکوں پہ و چوراہوں میں دن دھاڑے لوگوں کو لُوٹتے ہیں اور ذرا سی مزاحمت کرنے پر انہیں بے دریغ قتل کر دیتے ہیں ؟
یہ کون ہیں جو بسوں پہ لوگوں کے موبائل فون اور پرس چھینتے ہیں اور مزاحمت کرنے والوں کو بھری بس میں گولی مار دیتے ہیں ؟
یہ کون لوگ ہیں جو اپنی ماں بہن ہونے کے باوجود دوسروں کی ماں بہن بہو بیٹیوں کو سر راہ چھیڑتے ہیں اور ان کی عزت  تارتار کرتے ہیں‘ جوان بھائی اور بوڑے باپ کے سامنے جوان بہن و بیٹی کی ریپ / عصمت دری کرنے سے نہیں چُوکتے ؟   
یہ کون لوگ ہیں جو اپنی نفس کو آسودہ  کرنے کے لیے ہر طرح کی کرپشن میں ملوث ہیں، رشوت خوری،  چوری،  ڈکیتی،   شراب نوشی،  بے حیائی، فحاشی، عیاشی،  زناکاری،  بدکاری وغیرہ  وہ کون سی برائی ہے جو یہ لوگ نہیں کرتے ؟
عجب بات ہے۔
یہ یہود و نصاریٰ یا ہنود نہیں ہیں۔ یہ باہر سے آنے والے ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ یہ سب باہر سے پل بڑھ کر‘ باہر سے ٹرینگ لے کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کرنے نہیں آئے۔ یہ اپنے ملک کے ہی لوگ ہیں۔
افسوس کہ
یہ سب بھی مسلمان ہیں
یہ سب ہی مسلم ملک میں مسلمانوں کے گھروں میں  پیدا ہونے والے مسلم گھرانے اور مسلم معاشرے میں پروان چڑھنے والے مسلمان  ہیں۔
کیا ان سب کو اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت کے بارے میں نہیں بتایا گیا ؟
جی اصل مسٔلہ ہی یہی ہے۔
مسلم ملک و معاشرے اور گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اِن عقائد  کے بارے میں انہیں صحیح علم نہیں دیا گیا اور نہ ان میں عقیدہ و ایمان کی پختگی ہے‘ نہ انہیں اللہ کا خوف ہے‘ نہ ان کا آخرت پر ایمان ہے اور نہ ہی یہ رسول ﷺ کو ماننے و اتباع کرنے والے ہیں۔
یہ پیدا تو فطرت اسلام  پہ ہوئے تھے۔ جیسا کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’  ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔‘‘
آج مسلمانوں میں بھی یہی ہے۔ پاک دل لے کر فطرت اسلام  پر پیدا ہونے والے بچے کو اس کے والدین شرک و بدعت والا ماحول دیکر اللہ کی نافرمانیوں میں مبتلا کرکے اُس کو فطرت اسلام سے دور کر دیتے ہیں۔
یوں آج کے مسلم ملک‘ معاشرے و گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود اکثریت شرک ہی میں مبتلا ہیں۔
اور آج اِس اُمت میں جو سب سے بڑا فساد ہے وہ شرک و بدعات کا فساد ہے۔
جب شرک و بدعات کا فساد آتا ہے تو اس میں دوسرے سارے فسادات خود بخود سر اٹھا لیتے ہیں‘ یقین نہیں تو اقوامِ عالم کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، نوح علیہ السلام  کی قوم میں میں  بُت پرستی کی ابتداء سے لیکر آج تک جو بھی قوم شرک میں مبتلا ہوئی انہیں فسادات نے جکڑ لیا۔
آج اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت سے ناآشنا مسلمانوں میں نہ ہی اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی آخرت میں اُس جبار و قہار کی پکڑ کا کوئی ڈر ہے تو ایسے لوگ دنیا میں فساد  ہی مچائیں گے،  جسے ہم ہر مسلم ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ فساد ہی فساد ہے اور امن و امان مفقود ہے۔
حل کیا ہے۔
فسادات کیسے ختم ہوں‘ امن و امان کیسے قائم ہو۔
مسلم ملک و معاشرے میں دہشت گردی نہ ہو‘ مسلمان فساد میں نہ پڑیں‘ مسلمان مسلمان کا خون نہ بہائیں، ایسا کیسے ممکن ہو۔
ان تمام فسادات کا‘ ان تمام برائیوں کا‘ امن و امان بحال کرنے کا حل ایک ہی ہے اور وہ ہے عقائد کی درستگی۔  لوگوں میں اسلام کی بنیادی عقائد توحید‘ رسالت و آخرت کی پختگی کے بغیر امن و امان کا قیام ممکن نہیں۔
جب ہمارے عقائد درست  ہو جائیں گے تو ہمارے دلوں میں اپنے رب کریم کی اہمیت ہوگی ‘ اپنے رب کریم کی محبت ہوگی اور اپنے رب کریم کا خوف ہوگا اور ہم اپنے رب کریم کی نافرمانیوں سے بچتے ہوئے اللہ کی زمین میں کوئی فساد برپا نہیں کریں گے اور ہمارے معاشرے میں امن قائم ہوگا۔
فسادات ختم کرنے اور  امن و امان قائم کرنے کیلئے اتنا یقین ہی کافی ہے کہ اللہ سمیع‘ علیم و بصیر  ہے۔
کیا ہم سب نہیں جانتے کہ
إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے۔
إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ   
بیشک اللہ دلوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
إِنَّ اللَّـهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
بےشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے ۔
إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے ۔
جو بندہ اپنی رب کو پہچانتا ہو‘ اپنی رب کی معرفت رکھتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جس بندے کو یہ یقینِ کامل ہو جائے کہ اس کا رب اس کی ہر بات ‘ ہر سرگوشی کو ہر گھڑی ہر آن  کوئی  سننے و جاننے والا ہے اور خبر  رکھنے والا ہے‘ یہاں تک کہ اس کی دل میں چھپی باتوں کو بھی  وہ خوب جانتا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ہر چھوٹے بڑے کھلے چھپے عمل کا ریکارڈ بھی  ر کھا جا رہا ہے  بھلا وہ اپنے رب کی دی ہوئی مہلت‘  قدرت و آزادی  سے غفلت  کیوں برت سکتا ہے‘  اپنے رب کی نافرمانی کی باتیں کیسے سونچ سکتا ہے‘  گناہ کرنا تو دور کی بات ہے وہ تو معصیت کی باتوں کو اپنے دل میں جگہ بھی نہیں دے سکتا کیوں کہ اسے معلوم ہے اس کی دل کی  باتیں جاننے والا کسی بھی لمحے اس کی پکڑ کر سکتا ہے اور اس کی پکڑ بڑی سخت ہے ۔
إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ﴿١٢﴾ سورة البروج
یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے
اور پھر جس بندے کا عقیدۂ آخرت  پر ایمان اور یقین ہوگا۔
جس کا یقین ہوگا کہ موت کے بعد اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس کے اچھے برے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور پھر جنت یا جہنم میں ایک ہمیشہ کی زندگی ہے اور جسے دنیا میں عذاب میں مبتلا اپنے جیسے دوسرے بندوں کو  دیکھ کر دنیا سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ بھیانک جہنم کی عذاب کا احساس ہو جائے  اور جس کے دل میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت جنت کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو جائے،   کیا وہ اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے دنیا میں فساد برپا کرے گا یا امن و امان کا مسٔلہ پیدا کرنے کی کبھی سونچے گا ؟
اور جب عقیدۂ رسالت کا علم ہوگا اور اس بات پر پہختہ ایمان و یقین ہوگا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم کی سچی پیروی کئیے بغیر نہ ہی  ہماری دنیا ہی سنور سکتی ہے اور نہ ہم آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم سے سچی محبت پیدا ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم  کا اتباع کرنا آسان ہوگا پھرہم بدعات کو چھوڑ کر سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم کی پیروی کرنے والے ہو جائیں گے۔ جب ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم  نے  ہنسی مذاق میں اپنے ساتھی کو پریشان کرنے والے  سے فرمایا :
                  ’’ ایک مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو مضطرب کرے۔‘‘
یا اونگھتے ہوئے ساتھی کے ایک ترکش مذاقاً اڑا لینے والے سے  فرمایا:
’’ کسی آدمی کیلئے حلال نہیں کہ وہ ایک مسلمان کو پریشان کرے۔‘‘
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور اسے مومن بھی اسی وجہ سے کہا جا تا ہے کہ وہ امن پسند اور امن دینے والا ہو تا ہے ۔
رسو ل صلی اﷲ علیہ وسلمنے فرماتے ہیں کہ مومن وہ ہے جس کے شر سے لوگ محفوظ رہیں
پیغمبر امن و سلامتی نے فرمایا
جس آدمی نے اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کیا اس پر اﷲ تعالیٰ کے فرشتے لعنت کرتے ہیں جب تک وہ باز نہیں آتا اس پر لعنت ہوتی رہتی ہے ۔
خطبہ حجتہ الوداع کے موقع آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جان و مال اور عزت کی حفاظت کے حوالہ سے فرمایا بے شک تمہارے خون ،مال اور عصمت اس طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ دن اس مہینے میں تمہارے اس شہر میں حرمت والا ہے ۔
لہذا آپ ﷺ کو ماننے والا‘ آپ ﷺ پر جا ن نچھاور کرنے والا ‘ آپ ﷺ کی اتباع کرنے والا اور  آپ ﷺ  تعلیمات کوجاننے اور عمل کرنے والا

مسلمان مسلمان کو کیوں کرپریشان کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کو کیوں کر قتل کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کا چین و سکون کیوں غارت کرے گا ؟
مسلمان مسلمان کا مال ناجائز کیوں ہڑپ کرے گاِ ؟
مسلمان مسلمان کی بہن بہو بیٹی کی عزت کیوں تار تار کرے گا ؟
مسلمان کرپشن  ‘ بد عنوانی و رشوت خوری کیوں کرے گا ؟
مسلمان  چوری، ڈکیتی ‘ قتل و غارت گری کیوں کرے گا ؟
مسلمان  بے حیائی‘ فحاشی، زناکاری، بدکاری وغیرہ کا کام کیوں کر کرے گا ؟

ایسا تب ہی ممکن ہے جب ہمارے عقائد درست ہو جائیں ‘ ہمارا ایمان و یقین پختہ ہو جائے‘  ہم پورے کے  پورے اسلام میں داخل ہوجائیں‘ اللہ کے فرمانبردار اور نبی صلی اللہ علیہ و آلیہ و سلم   کے اطاعت گزار بن جائیں اور  ہم مسلمان بن کر جینے والے اور مسلمان بن کر مرنے والے بن جائیں۔

آج دنیا کی ترقی یافتہ مغربی ممالک میں جدید ترین کیمرے و سینسر اور راڈار اور تمام جدید ترین وصائل سے مالامال پولس اور سیکوریٹی اہل کاروں کی مدد سے فسادات ختم کرنے کی سعی کرنے کے باوجود وہاں بھی ایسا نہیں کہ ایک اکیلی عورت دور دراز کا سفر کرے اور اسے سوائے اللہ کے خوف کے اور کوئی خوف نہ ہو جب کہ اسلام محض عقائد کی درستگی کی بنیاد پر ایسا امن و امان والا معاشرہ قائم کرکے ثابت کر چکا ہے۔

صحیح بخاری میں عدیؓ بن حاتم کی روایت سے ہے کہ حضورؐ نے فرمایاکہ 
 ’’ بہت جلد امن کا ایسا دوربھی آنے والاہے جب کجاوے میں ایک اکیلی خاتون حیرہ (اعراق ‘ بہت دوردراز علاقہ) سے کعبہ کے طواف کے لئے سفرکرے گی اورمکہ پہنچ کرکعبے کاطواف کرے گی مگراُسے سوائے اللہ کے خوف کے اورکوئی خوف نہ ہوگا۔( عدی کہتے ہیں کہ بعد میں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ ایک اکیلی عورت حیرہ  سے آتی ہے ، کعبہ کاطواف کرتی ہے اوراللہ کے سوا اس کوکسی کاڈرنہیں ہوتا) ۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر3595)۔

ماضی کی طرح آج بھی اسلام کی ہی بنیاد پرملک و ملت اور ہر شہر و بستی میں ایسا  امن و امان قائم ہو سکتا ہے کہ ایک اکیلی عورت کو بھی سوائے اللہ کے کسی کا ڈر و خوف نہ ہوگا لیکن اس کیلئے ضروری ہے عقیدے کی اصلاح۔

قوموں کی تاریخ میں ہمیشہ سے سنت اﷲ یہ رہی ہے جب بھی زمین پہ فسادات عروج پہ پہنچی‘ اللہ رب العزت نے ابنیاء علیہ السلاۃ و السلام کے ذریعے اپنے بندوں کی عقیدے کی اصلاح کروایا۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے شروعات میں عقیدے کی اصلاح کوہی اپنی محنت اور کاوشوں کا مرکز بنایا۔ قرآن مجید میں بھی زیادہ تر مضامین عقائد سے متعلق ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اب کسی نبی کو نہیں بھیجے گا‘ اب یہ کام امت محمدیہ ﷺ کو ہی کرنا ہے۔
لہذا آئیے  عقیدے کی اصلاح سے مسلم  معاشرہ کی  اصلاح کیجئے۔....