Tuesday, March 18, 2014

Hoqooq ul Allah " حقوق اللہ "


حقوق کی باتیں بہت ہوتیں ہیں۔
آج جس کو دیکھو بس کہتے نظر آئے گا ہمارے حقوق مارے جا رہے ہیں۔
کویٴ سرکار کو قصوروار ٹھہراتا ہے‘ تو کویٴ سرکاری افسران کو۔
کویٴ اپنے ماں باپ‘ بھایٴ بہن اور اپنے عزیز رشتہ داروں کو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
لیکن ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کے ہم بھی تو اسی معاشرے میں ہیں
کیا ہم نے سب کے حقوق ادا کر دئیے ہیں۔
یا ہم خود بہت سوں کے حقوق کے غاصب بنے بیٹھے ہیں۔
کیا ہم نے کبھی سونچا کہ ہمارے اوپر سب سے زیادہ حق کس کا ہے۔
ذرا سونچیں۔۔۔
ہمارے اوپر کس کے حقوق  سب سے زیادہ ہیں اور کس کی حقوق کی ادائیگی میں ہمیں پہل کرنی چاہئے:
۔۔۔ ۔۔۔ ہمارے والدین کے (ہاں یا نہیں)
۔۔۔ ۔۔۔ ہمارے بیوی بچوں کے (ہاں یا نہیں)
۔۔۔ ۔۔۔ ہمارے بھایٴ بہنوں کے (ہاں یا نہیں)
۔۔۔ ۔۔۔ ہمارے اساتذہ کے (ہاں یا نہیں)
۔۔۔ ۔۔۔ ہمارے آفس کے باس کے (ہاں یا نہیں)
۔۔۔ ۔۔۔ ادارے‘ ملکـ  و ملت‘ انسانیت وغیرہ  کے (ہاں یا نہیں)
کیا جواب ہے ہمارے پاس 
ذرا سونچیں۔۔۔
کہیں ایسا تو نہیں ہم خود ہی بڑے غاصب ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں ہم نے خود ہی سب سے بڑے کی حقوق غصب کی ہو۔
جی کچھ ایسا ہی ہے۔
ہم سب جانتے اور مانتے ہیں ہمارا ’ اللہ ‘ سب سے بڑا ہے (اللہ اکبر)۔
پس سب سے پہلے ہمارے لئے حقوق اللہ کی ادائیگی ضروری ہے۔
.......کیا ہم نے صبح بیدار ہوتے ہی ’ للہ‘ کی حمد و ثناء کی ‘ اگر نہیں کی تو ہم نے ’ للہ‘ کا حق ادا نہیں کیا؟
........کیا صبح اُٹھتے ہی سب سے پہلے ہماری کانوں سے ’ اللہ اکبر‘ کی صدا آذان کی صورت میں ٹکرایٴ اور اگر نہیں ٹکرای تو ہم نے ’ اللہ ‘  کا حق ادا نہیں کیا؟
.......کیا صبح ہم نے فجر کی نماز پڑھی اور اگر نہیں پڑھی تو ہم نے ’ اللہ ‘ کا حق ادا نہیں کیا؟
.......اگر مرد ہیں تو کیا باجماعت فجر کی نماز پڑھی  اگر نہیں پرھی تو ہم نے ’ اللہ ‘ کا حق ادا نہیں کیا؟
......دن بھر کی بقیہ نمازیں پڑھی  اگر نہیں پرھی تو ہم نے ’ اللہ ‘ کا حق ادا نہیں کیا؟
.......اور اگر نماز پڑھی بھی تو کیا شرک سے پاک رہکر دعائیں مانگیں یا  
’’ ۔۔۔ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ  ﴿٥﴾ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
کی رٹ لگانے کے بعد ہی ’یا غوث‘ یا علی یا خواجہ‘ یا داتا وغیرہ کا رٹ لگایا۔
دنیا میں تو یہ قائدہ سب ہی جانتے اور مانتے ہیں کہ جتنا بڑا جرم ہوگا ویساہی سزا۔
پھر ہم یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ جو سب سے بڑا ہے اسکی حقوق کی ادائیگی نہ کی جائے اور کہا جائے وہ تو بڑا غفورالرحیم ہے اپنے حقوق معاف کر دے گا۔
بے شک ہمارا رب بڑا غفورالرحیم ہے اور وہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔
لیکن یہ کیسی ہٹ دھرمی اور ڈھٹایٴ ہے کہ ہم اسے سب سے بڑا سمجھتے ہوئے بھی‘ اپنا خالق‘ مالک اور رازق مانتے ہوئے بھی  اور اسکے سارے احسانات کوماننے کے با وجود‘ اسکی حقوق کی ادائیگی نہ کریں۔
اُن لوگوں کے پاس کیا جواب ہے جو ’ حقوق العباد ‘ کی ادائیگی کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے اور کہتے پھرتے ہیں‘ بس جی ’ حقوق العباد ‘ کا خیال رکھوں ۔۔۔۔ اپنا حق تو اللہ معاف کر ہی دے گا۔
کیسے گمراہ ہیں یہ لوگ اور عوام میں کیسی گمراہی پھیلایٴ ہے۔
شرک پہ شرک کئے جاوٴ اور ’ حقوق العباد ‘ کا خیال رکھوں ۔۔۔ اللہ معاف کر دے گا ۔۔۔ واہ کیا سونچ ڈالی گئی ہے۔ جبکہ اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨  سورة النساء
یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا۔
اللہ نے ہمیں  صرف اور صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا ہے:
۔۔۔۔ ’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ  ﴿٥٦﴾ سورة الذاريات
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں ‘‘۔۔۔۔
قرآن کی اس واضح احکام کے باوجود‘ کیسی ڈھٹایٴ سے لوگ کہہ دیتے ہیں ۔۔۔ بس جی ’ حقوق العباد ‘ کا خیال رکھوں ۔۔۔۔ حقوق اللہ تو معاف ہو ہی جائے گا۔’ حقوق العباد ‘ کی اسطرح رٹ لگانے والے بعض لوگ خود ہی نہیں جانتے کہ ’ حقوق العباد ‘ کیا ہوتی ہے۔ (پھر کبھی تفصیل لکھوں گا‘ انشاء اللہ)
یہ ’ حقوق العباد‘ تو’ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ‘ سے سیکھے اور سمجھے جاتے ہیں۔
اور
جو حقوق اللہ ہی ادا نہ کرے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کیا جانے‘ چاہے خود کو کیسا ہی عاشقانِ رسول ظاہر کرے۔
اور جب أَطِيعُوا الرَّسُولَ ہی نہیں‘ تو حقوق العباد کہاں؟  ماں باپ کے حقوق کہاں؟  بیوی ‘ بچے ‘ بہن بھایٴ اور دیگر عزیز و اقارب کے حقوق کہاں؟ ملکـ  و ملت‘ انسانوں و حیوانوں کے حقوق کہاں؟
اگر اب بھی ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ دورِ غلامی میں ہماری اسلامی تعلیمات کو مسخ کی گئی اور غلط سونچ ہم میں ڈالی گئی لیکن اب تو آزاد ہوئے ہمیں نصف صدی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر اب بھی ہم دین کی صحیح بات نہیں سیکھیں گے اور بھونڈے لوگوں کی بھونڈی باتوں کو گلے لگائے شرک و بدعات میں پڑے رہیں گے تو اللہ کب اور کیسے ہم پر رحم کرے گا۔
اللہ تو غفور الرحیم ہے لیکن کس کے لئے:
’’ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ  ﴿١٣٢﴾   سورة آل عمران
اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‎ ‘‘
جو سب سے پہلے  حقوق اللہ کی ادائیگی کرے یعنی اللہ پرایسا ایمان لائے جو شرک سے پاک ہو اور تمام عبادات ( نماز ،  روزہ ، حج ،  زکواۃ ، وغیرہ ارکان اسلام ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھے‘ سمجھے اور صرف اللہ کیلئے بجا لائے۔
بے شک اللہ اُس پر رحم کریگا اور وہ  اللہ سے اچھی اچھی اُمیدیں رکھنے کا حقدار ہے:
’’  أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّـهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ  ﴿٧٤﴾  سورة المائدة
یہ لوگ کیوں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟ اللہ تعالیٰ تو بہت ہی بخشنے واﻻ اور بڑا ہی مہربان ہے۔ ‘‘     
یہاں پہلے اللہ کی طرف جھکنا اور استغفار کرنا شرط ہے۔
ورنہ
’’ اِعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ  ﴿٩٨﴾ مَّا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ  ﴿٩٩﴾  سورة المائدة
تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے واﻻ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت واﻻ بھی ہے ۔ رسول کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیده رکھتے ہو۔ ‘‘     
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حقوق اللہ کے بارے میں اور اور جو بندے اللہ کی عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں گیں ‘ ان کو خوشخبری سناتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ اے معاذ! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے بندوں پر یہ حق ہیں کہ بندے خاص اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں‘ اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ دیں۔ ‘‘
نقطہٴ نظر:
حقوق اللہ کو مقدم رکھیں لیکن حقوق العباد سے بھی غفلت   نہ برتیں۔ 
طرز زندگی کی تھوڑی سی تبدیلی دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے کافی ہوگی۔


No comments:

Post a Comment